27 C
Lahore
Thursday, September 19, 2024

موضوع کی تلا ش میں۔۔۔

موضوع کی تلا ش میں۔۔۔

جب آپ لکھنے سے پہلے کسی موضوع کی تلاش میں ہوتے ہیں تو اس سے کچھ دیر پہلے آپ نے موبائل پر کوئی سوشل نیٹ ورک کی سائٹ دیکھی ہوتی ہے مثلا آپ نے ابھی ابھی “X” کو وزٹ کیا اور ساتھ میں سوچا کہ آپ “قلم” اٹھا کر کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو “X” کے مقامی یعنی پاکستانی خواتین و حضرات اکاؤنٹس سے آپ کو کیا Fruit for Thought ملا ہوگا ؟

جس سے متاثر ہو کر آپ کچھ تحریر کر سکیں۔

سوچنے والا دماغ اگر بیرونی محرکات سے کم سے کم متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو تو آزادی کے ساتھ اپنے موضوع کا انتخاب کر سکے گا جس پر کسی نظریے کا اثر نہ ہو خاص طور پر ایسے نظریات جو ماڈرن ٹیکنالوجی کے ذریعے وقتا فوقتا آپ کے سامنے آتے ہوں۔ ایسے نظریات کے صحیح یا غلط ہونے سے بحث نہیں، نہ ہی ان کے اعلیٰ یا ادنی ہونے سے سروکار ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ وہ نظریات آپ کو کس حد تک متاثر کر سکتے ہیں یا کرتے ہیں

گزارش اس تمہید کے بعد یہ ہے کہ لمبی مسافت کی دہائی گزارنے کے بعد سوچنے اور لکھنے کے لیے تو موضوعات کی کمی نہیں رہی ،مگر پڑھنے والے کیا پڑھنا چاہتے ہیں اور کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ یہ سوال ایک جامعہ تحقیق کا تقاضہ کرتا ہے ۔

کیونکہ اب انسانوں کو ایک نئی تقسیم کا سامنا ہے ۔کس سال میں آپ پیدا ہوئے پچھلی صدی کے اختتام میں اور اختتام کی بھی کس دہائی میں یا اس صدی کے آغاز میں اور آغاز میں بھی کب۔

پھر آپ شہری ہیں یا دیہاتی کسی خاص یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں یا سکول کے بعد کالج کی شکل بھی نہیں دیکھی۔

شہر میں بھی سکول سرکاری تو نہیں تھا اور شہر کی یونیورسٹی سرکاری یا پرائیویٹ۔ پرائیویٹ بھی سستی تھی یا مہنگی؟

یہ ایک نا ختم ہونے والی فہرست ہے جو تقسیم در تقسیم کرتی رہتی ہے اس ساری تقسیم کے باوجود اکثر آپ کی شناخت کے لیے آپ کا ایک سوشل اکاؤنٹ کافی ہوتا ہے اور اکثر آپ کے نظریات ،خیالات کا اظہار آپ کے سیاسی وابستگی سے ہو جاتا ہے یا آپ کو ایک خانے میں Fit کر دیا جاتا ہے اور آپ اس میں ہی رہتے ،رکھے جاتے، یا رہنا چاہتے ہیں۔

ظاہری طور پر تو اوپر بیان کردہ تفصیل کے تحت یہ اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ کون کیا پڑھنا سننا اور دیکھنا چاہتا ہے مگر خوش قسمتی سے ایک دنیا انٹرنیٹ کے باہر بھی ابھی تک ہے جہاں اصل لوگ بھی ہوتے ہیں اپنے سارے جذبات، احساسات اور وجود کے ساتھ اپنی سوشل شناخت میںRobotic یا ایک ہی سمت پر چلنے، دیکھنے اور سوچنے والے حقیقی زندگی میں۔۔۔۔۔۔ کاش یہ لکھا جا سکتا ہے کہ وہ حقیقی زندگی میں یکسر مختلف ہوتے ہیں اور بالکل بھیRigid نہیں ہوتے ،کسی ایک نظریے کے آ ہنی لباس میں قید نہیں ہوتے بلکہ مختلف سوچ اور فکر کو سن کر اسے ہضم کرتے اور دلیل کو مان بھی سکتے ہیں۔

مگر بدقسمتی کہیے کہ ایسا نہیں ہے سوشل ہینڈلز پر ہمارے ہی اصل روپ کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس تلاش میں کافی مہینے گزر گئے اس تقسیم در تقسیم شدہ Audience کو کن موضوعات سے رغبت ہوگی ۔

اور آج کل کی معلومات سے بھرپور دنیا جہاں دنیا جہان کی اور ستاروں کہ آگے تک کی انفارمیشن اس قدر آسانی سے دستیاب ہے کہ کم از کم معلومات کی حد تک ہر شخص عالم و فاضل لگتا ہے ۔

اس تلاش میں بات یہاں تک پہنچی کہ فکری اور معاشی لحاظ سے تقسیم شدہ ساری بلکہ بہت ساری قسموں کے افراد سے علیحدہ علیحدہ بات چیت کس طرح کی جائے ۔خاص طور پر زمین کے ایسے خطے میں جہاں 3/3زبانیں ملا کر بولی جاتی ہیں اور کسی حد تک لکھی بھی جاتی ہیں۔

اس تلاش میں بات یہاں تک پہنچی کہ فکری اور معاشی لحاظ سے تقسیم شدہ ساری بلکہ بہت ساری قسموں کے افراد سے علیحدہ علیحدہ بات چیت کس طرح کی جائے ۔خاص طور پر زمین کے ایسے خطے میں جہاں 3/3زبانیں ملا کر بولی جاتی ہیں اور کسی حد تک لکھی بھی جاتی ہیں۔

ہمارے ہاں ایک دو دہائیوں سے سیاسی طور پر نوجوانوں کو بہت ہی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے شاید اس لیے کیونکہ 60 فیصد سے زیادہ آبادی 30 سال سے کم عمر افراد کی ہے تو یہ آبادی الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے اس لیے اس حقیقت کو بنیاد بنا کر نوجوانوں کی زبان بولنے کی کوشش کی جاتی ہے

تاکہ ان تک اپنی بات پہنچائی جا سکے اس ساری گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ کہاں کہاں کے مختلف اقسام کے رنگ اور نسل کے اور بہت سی دیگرCategoriesمیں منقسم نوجوانوں کی زبان کیا کیا ہے کون سی ہے۔ زبان تو چلو ایک طے ہو جائے گا کہ قومی زبان ہے مگر اس کا استعمال کس کس طرح کے نوجوانوں کے ساتھ کس کس طرح کرنا ہے۔

انٹرنیٹ نے بہت سی نئی اقسام میں نوجوانوں کو تقسیم کیا ہے جیسےInstagram والے اپنا آپ اور طرح سےExpress کرتے ہیں اور اسی طرح سے دوسرے کا پیغام دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ اشاروں کی زبان، چہرے کی زبان، ٓانکھوں کی زبان، یعنی ہر ہر طور سے ایسے نوجوان جوInstagramer ہوں اور وہ لگتے بھی ہیں بھلےGender کوئی بھی ہو اسی طرح Snapchatوالوں کی بھاشا اور ہے Tiktok کی اور۔

لگتا تو یہ ہے کہ ان نیٹ ورک سائیٹس پہ موجود انسانوں سے گفتگو اور رابطے کے لیے بہترین Choiceصرف Reelsہیں ۔

چلیں فرض کرتے ہیں کہ ہر قسم یا انواع واقسام کے نوجوانوں، انسانوں سے گفتگو کرنے کے لیے آپ نے ایک عالمگیر زبان ایجاد کر بھی لی اور آپ نے سمجھ لیا کہ کون کون سے لوگوں سے کس کس انداز سے بات کرنی ہے تو اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوگا کہ بات کرنی کیا ہے؟

بھلے ہم کوئی سیاسی جماعت ہیں یا کوئی اصلاحی ادارہ ہیں ہم کوئی حکومتی عہدے دار ہیں یا جو کوئی بھی، اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بالعموم اور نوجوانوں سے بالخصوص کوئی بات چیت سمجھانے والی کرنا چاہتے ہیں وہ بات ہوگی کیا ؟

لوگوں کو ایسا کیا بتایا یا سمجھایا جائے گا جس سے قوم کی لوگوں کی تقدیر بدل جائے گی؟

آج کا موضوع بس یہی سوال ہی بنا۔

مقبول مرزا

Previous article

Related Articles

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay Connected

176,934FansLike
37FollowersFollow
2,280SubscribersSubscribe

Latest News