صوبائی دارالحکومت لاہور میں جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ (آئی سی یو) میں سفید چادر میں لپٹی لگ بھگ 12 سالہ بچی لیٹی ہے۔ اس کا جسم حرکت نہیں کر رہا مگر جسم کے ساتھ جڑے طبی آلات اور مشینیں یہ بتا رہی ہیں کہ اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔
گہرے نشان ہیں۔ لیکن بیڈ کے دوسری طرف جا کر جب اس کے چہرے اور آنکھوں پر نظر پڑتی ہے تو جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے۔ چہرے پر آنکھوں کی جگہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صرف دو کالے گڑھے باقی ہیں۔
آنکھوں کے ارد گرد جلد پر پرانے زخموں کے نشان سوکھ چکے ہیں۔ یہ دیکھ کر سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا ہو گا؟
جلد غائب ہے اور سر کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے سے گڑھے پڑے ہیں۔
ان کی والدہ شمیم بی بی نے بتایا کہ چند روز قبل جب وہ رضوانہ کو اسلام آباد سے واپس سرگودھا لا رہی تھیں تو بچی کے سر کے ان زخموں میں کیڑے موجود تھے۔
اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی انگلیاں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس کے جسم پر ہاتھ لگانے سے اس کی چیخیں نکل جاتی تھیں۔
شمیم بی بی کہتی ہیں کہ واپسی کے سفر پر بس میں بیٹھے ان کی بچی صرف رو رہی تھی اور انھیں بتا رہی تھی کہ گذشتہ سات مہینے میں اس کے ساتھ کیا کیا ہوا ہے۔