26 C
Lahore
Thursday, September 19, 2024

قبائلی ضلع باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام (ف) شدت پسندی پر مبنی کارروائیوں کا ہدف کیوں بن رہی ہے؟

پاکستان کے قبائلی ضلع باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے چار اگست (جمعہ) کو صوبائی دارالحکومت پشاور میں گرینڈ قومی قبائلی جرگے کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں خیبرپختونخوا اور خاص کر سابقہ فاٹا کے علاقوں میں شدت پسندی سمیت امن و امان کی صورتحال پر مشاورت ہو گی۔

جے یو آئی (ف) کے ورکز کنونشن پر گذشتہ اتوار کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم داعش نے قبول کرتے ہوئے حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی ہے جبکہ دوسری جانب سکیورٹی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور کا تعلق افغانستان سے تھا۔

باجوڑ میں حکام نے اس خودکش حملے میں اب تک 49 افراد کی ہلاکت اور 83 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ اس حملے کو حالیہ برسوں میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں اور کارکنوں پر ہونے والا بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ملک میں عام انتخابات سے قبل جے یو آئی (ف) کے سیاسی کنونشن پر ہونے والے اس حملے کے بعد یہ سوالات کیے جا رہے ہیں کہ آخر جے یو آئی (ف) ہی داعش کی جانب سے ہونے والے حملوں کا ہدف کیوں بن رہی ہے اور ماضی قریب میں اس جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں پر بیشتر حملے باجوڑ میں ہی کیوں ہوئے ہیں؟

کیا یہ حملے داعش سے تعلق رکھنے والے ایک حملہ آور کی ہلاکت کا انتقام ہے، نظریاتی اختلافات کا شاخسانہ یا کچھ اور، اس کی تفصیل آگے جا کر بیان کریں گے، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ہونے والے اس نوعیت کے حملوں کی تفصیل کیا ہے۔

جمیعت داعش کے نشانے پر کیوں؟


اجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام کے رہنما اور سابق سینیٹر مولانا عبدالرشید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ تو نہیں معلوم کہ انھیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کا یہ سوال ریاست سے ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے کیوں جمعیت کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام کے کارکن اس ملک کے شہری ہیں اور وہ اس ملک کے قانون اور آئین کو ماننے والے ہیں۔ ’ریاست کو چاہیے کہ وہ ہمیں ہمارا گناہ بتائے کہ آخر کیوں ایسا کیا جا رہا ہے۔‘

سینیئر تجزیہ کار اور محقق عبدالسید نے بی بی سی کو بتایا کہ داعش نے باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام کے جلسہ پر خودکش حملہ کی وجہ جمیعت کے ’جمہوری نظام کا حصہ‘ ہونے کو قرار دیا ہے، مگر اس سے بڑھ کر اس کی چند اور پس پردہ وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بالخصوص باجوڑ میں جے یو آئی کے رہنماؤں کو حملہ بنانے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ داعش کے دعوؤں کے مطابق سنہ 2021 میں باجوڑ میں داعش کے ایک مقامی حملہ آور زینت اللہ عرف بلال کو ٹارگٹ کلنگ کی ایک کارروائی کے دوران اس وقت پکڑ لیا گیا جب وہ حملے کی تیاری کر رہا تھا اور اس کے بعد اسے تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا۔

اس پورے معاملے کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور داعش نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور کو پکڑنے اور ہلاک کرنے والوں کا تعلق جے یو آئی سے تھا۔ تاہم مولانا عبدالرشید خان نے کہا ہے کہ انھیں کسی ویڈیو کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اُن کے کسی کارکن نے یہ تشدد کیا تھا کیونکہ ان کی جماعت ایک آئینی جمہوری پر امن جماعت ہے۔

’ہماری جماعت ایک سیاسی جماعت ہے، ہم امن پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری کسی تنظیم یا کسی اورگروہ سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔‘

عبدالسید نے بتایا کہ اس کے بعد سے باجوڑ میں داعش نے تسلسل سے ان افراد کو ’ہدفی کارروائیوں‘ میں قتل کیا جو اس داعش کے مبینہ حملہ آور کے قتل کے مبینہ واقعہ میں شریک تھے۔

انھوں نے کہا کہ داعش کے ایک رہنما ابو سعد خراسانی نے گذشتہ سال مارچ میں ایک تفصیلی تحریری بیان جاری کیا تھا جس میں حملہ آور (بلال) کے قتل کا خصوصی ذکر کیا گیا اور دھمکی دی تھی کہ اس کا انتقام لیا جائے گا۔

عبدالسید کے مطابق اسی طرح داعش کے ’العزائم میڈیا‘ کے طرف سے 92 صفحات پر مشتمل کتابچہ جاری کیا گیا ہے جس میں باجوڑ بم دھماکے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور اسی کتابچے میں ایک وجہ زینت اللہ عرف بلال کے ’قتل کا انتقام‘ قرار دیا گیا ہے۔

داعش نے باجوڑ حملے کے بعد اپنی کارروائیوں کے بارے میں پشتو زبان میں یہ کتابچہ جاری کیا ہے جس میں جمیعت علمائے اسلام کی پالیسوں پر بات کی گئی ہے ۔

Related Articles

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay Connected

176,934FansLike
37FollowersFollow
2,280SubscribersSubscribe

Latest News